Search results

Saved words

Showing results for "ibtilaa"

'adam-vujuud

unawareness

vujuud-o-'adam-vujuud

ہونا اور نہ ہونا ؛ ہستی اور نیستی

vujuud-o-'adam

existence and non-existence

'adam-o-vujuud

existence and non-existence, to be or not to be

vujuud-o-'adam-baraabar

ہونا نہ ہونا برابر ، ہوا نہوایکساں

'adam-o-vujuud baraabar honaa

(of someone) be a non-entity, be of no significance

'adam se vujuud me.n aanaa

وجود میں آنا، پیدا ہونا

Meaning ofSee meaning ibtilaa in English, Hindi & Urdu

ibtilaa

इब्तिलाاِبْتِلا

Origin: Arabic

Vazn : 212

image-upload

Pictorial Reference

Feel free to upload images to enhance visual representation of meaning.

English meaning of ibtilaa

Looking for similar sounding words?

ibtilaa' (اِبْتِلاع)

نگل جانا ، گلے سے اُتارنا .

Sher Examples

इब्तिला के हिंदी अर्थ

संज्ञा, स्त्रीलिंग, एकवचन

اِبْتِلا کے اردو معانی

  • Roman
  • Urdu

اسم، مؤنث، واحد

  • بلا، مصیبت، افتاد، پھنسنا، آفت، بدبختی
  • آزمائش، امتحان، جانچ

Urdu meaning of ibtilaa

  • Roman
  • Urdu

  • bala, musiibat, uftaad, phansnaa, aafat, badabaKhtii
  • aazmaa.iish, imatihaan, jaanch

Synonyms of ibtilaa

Compound words of ibtilaa

Interesting Information on ibtilaa

ابتلا پلیٹس) (Platts نے اسے مذکر بتایا ہے۔ صاحب ’’نوراللغات‘‘ نے اسے مونث لکھ کر مسرور لکھنوی کا مندرجہ ذیل شعر نقل کیا ہے ؎ ہیں ایک نہ اک بلا کے پابند جاتی نہیں ابتلا ہماری یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ عربی کے جو مصادر باب افتعال سے ہیں اور ہمارے یہاں بطور اسم برتے جاتے ہیں، وہ سب مونث ہیں۔یہ ضروری نہیں۔ مثلاً حسب ذیل الفاظ باب افتعال سے ہیں لیکن مذکر ہیں: اتحاد؛اتہام؛اجتماع؛اختصاص؛اختیار؛ اعتبار؛ وغیرہ۔ باب افتعال کے بعض مصدرایسے ہیں جو مذکر مونث دونوں طرح بولے جاتے ہیں،یا پہلے مختلف فیہ تھے، لیکن اب رجحان ایک ہی طرف ہے۔ مثلاً ’’اتباع ‘‘اب عام طور پر مذکر ہے، پہلے مونث بھی تھا۔ ’’اردو لغت، تاریخی اصول پر‘‘ میں ’’تقویت الایمان ‘‘ کا فقرہ بطور سند درج ہے: رسول مقبول کی اتباع و اطاعت۔ اس کے برخلاف جلیل مانک پوری نے اپنے رسالے ’’تذکیر و تانیث‘‘ میں اسے مذکر لکھ کر سعادت خاں ناصر کا شعر نقل کیا ہے ؎ کر کے عصیاں آنکھ کو پر نم کیا اتباع سنت آدم کیا ’’اختراع ‘‘آج کل تقریباً ہمیشہ مونث سنا جاتا ہے لیکن منیر شکوہ آبادی نے مذکر باندھا ہے ؎ چلن سینہ شگافی کا بتایا سوگواروں کو لحد نے اختراع اول کیا چاک گریباں کا منیر شکوہ آبادی ہی نہیں، کوئی سو برس پہلے تک سبھی اس لفظ کو مذکر بولتے تھے۔ آج بھی کوئی مذکر بولے تو غلط نہ ہو گا، لیکن مونث بولنامرجح ہے۔ مہدی افادی نے اسے مونث ہی فرض کرتے ہوئے Masterpieceکا ترجمہ ’’اختراع فائقہ‘‘ کیا تھا۔ ’فائقہ‘‘ میں تاے تانیث ہے۔’’اختراع فائقہ‘‘ اب نہیں بولتے۔ ان معنی میں اب ’’شاہکار‘‘ رائج ہے۔ ’’اعتنا‘‘کومظفر علی اسیر نے مونث باندھا ہے ؎ نہ اٹھا نہ حضرت کی تعظیم کی نہ کچھ اعتنا کی نہ تسلیم کی آج کل یہ لفظ تقریباً ہمیشہ مذکر بولا جاتا ہے۔ ’’اردو لغت، تاریخی اصول پر‘‘ میں علامہ سید سلیمان ندوی کا یہ فقرہ بطور سند درج ہیـ: ادب اور فن بلاغت کے ساتھ زیادہ اعتنا کیا گیا۔ ’’ التماس‘‘شروع ہی سے مختلف فیہ رہا ہے۔ آج کل عام طور پر مونث ہے۔ میر نے مذکر باندھا ہے اور میر انیس نے مونث،میر (۱) اور میرا نیس (۲) ؎ صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی کیا پتنگے نے التماس کیا کی سر جھکا کے حیدر صفدر نے التماس روشن ہے حال آپ پہ یا شاہ حق شناس ’’التماس‘‘ کواحسان دانش نے مونث بتایا ہے اوربعض لوگوں کو میر کے شعر پر حیرت ہے کہ اس میں ’’التماس ‘‘مذکر ہے۔ ظاہر ہے کہ میر کے زمانے کی ہر تذکیریاتانیث آج کے لئے سند نہیں بن سکتی۔ لیکن آج بھی بہت سے لوگ ’’التماس ‘‘ کو مذکر بولتے ہیں۔ چونکہ محاورۂ جمہور دونوں طرح ہے لہٰذا شکایت کی کوئی گنجائش نہیں۔ جلیل مانک پوری نے اپنے رسالے ’’تذکیر و تانیث‘‘ میں لکھا ہے کہ دلی والے ’’التماس‘‘ کو مذکر بولتے ہیں، لیکن میرا خیال ہے اس میں لکھنؤ دلی کی تخصیص نہیں۔ کم سے کم اب تو نہیں ہے۔ ’’تذکیر و تانیث‘‘ (تاریخ اشاعت ۶۱۹۱) کے زمانے میں رہی ہو تو رہی ہو۔ ابجد دیکھئے، ’’حروف ابجد‘‘۔ ابھر کر سامنے آنا بعض لوگ ’’نمایاں ہونا، توجہ انگیز ہونا، توجہ کا مرکز بننا‘‘کی جگہ ’’ابھر کر سامنے آنا‘‘لکھنے لگے ہیں،یہ نہیں دیکھتے کہ اس فقرے میں تکرار ناروا ہے۔ جو چیز ابھرے گی وہ سامنے ہی تو آئے گی۔ ’’ابھرنا‘‘ اور ’’سامنے آنا‘‘ یہاں ایک ہی معنی دے رہے ہیں۔ پھر، ابھرنے کے بعد ’’سامنے آنا‘‘ کا کچھ مطلب یوں بھی نہیں کہ ابھر کر’’ پیچھے آنا‘‘ غیر ممکن ہے۔اسی طرح، کوئی چیز دب کر توسامنے آئے گی نہیں، لہٰذا’’ابھر کر‘‘ سامنے آنا کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یا تو ’’ابھر نا‘‘ کہیے،یا ’’سامنے آنا‘‘ کہیے۔ قبیح اور نا مناسب:گذشتہ چند برسوں میں جو شعرا ابھر کر سامنے آئے ہیں۔۔۔ فصیح اور مناسب:۔۔۔سامنے آئے ہیں/ابھرے ہیں/نمایاں ہوئے ہیں۔۔۔ قبیح اور نا مناسب:رپورٹ کو پڑھنے سے جو نکتہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔۔۔ فصیح اور مناسب:۔۔۔نمایاں ہوتا ہے/نمایاں طور پر نظر میں آتا ہے/خاص طور سے متوجہ کرتا ہے۔۔۔ قبیح اور نا مناسب:اس وقت ہمارے معاشرے میں تشدد کا رجحان ابھر کر سامنے آرہا ہے۔ فصیح اور مناسب:۔۔۔نمایاں ہو رہا ہے/ابھر رہا ہے/واضح طور پر ابھر رہا ہے/بہت زیادہ نمایاں ہو رہا ہے۔

ماخذ: لغات روز مرہ    
مصنف: شمس الرحمن فاروقی

View more

Related searched words

'adam-vujuud

unawareness

vujuud-o-'adam-vujuud

ہونا اور نہ ہونا ؛ ہستی اور نیستی

vujuud-o-'adam

existence and non-existence

'adam-o-vujuud

existence and non-existence, to be or not to be

vujuud-o-'adam-baraabar

ہونا نہ ہونا برابر ، ہوا نہوایکساں

'adam-o-vujuud baraabar honaa

(of someone) be a non-entity, be of no significance

'adam se vujuud me.n aanaa

وجود میں آنا، پیدا ہونا

Showing search results for: English meaning of ibtila

Citation Index: See the sources referred to in building Rekhta Dictionary

Critique us (ibtilaa)

Name

Email

Comment

ibtilaa

Upload Image Learn More

Name

Email

Display Name

Attach Image

Select image
(format .png, .jpg, .jpeg & max size 4MB and upto 4 images)

Subscribe to receive news & updates

Subscribe
Speak Now

Delete 44 saved words?

Do you really want to delete these records? This process cannot be undone

Want to show word meaning

Do you really want to Show these meaning? This process cannot be undone